پرائیویٹ کلنکس ہمیشہ آپریشن کی طرف جائیں گے

پرائیویٹ کلنکس ہمیشہ آپریشن کی طرف جائیں گے کیونکہ اسی میں ان کا فائدہ ہے.

چند سال پہلے کی بات ہے. ایک غریب آدمی نے کہا کہ اس کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے لیکن کچھ پیچیدگی کی وجہ سے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جراحی ہوگی، 70 ہزار روپے خرچہ آئے گا اور میرے پاس کچھ نہیں.

میں نے اپنے دوستوں کے گروپ میں بات کی. ایک ڈاکٹر نے کہا کہ میرے ہسپتال میں بھیج دو، 30 ہزار روپے میں سارا کام ہو جائے گا.

ایک اور دوست نے کہا کہ میری اہلیہ کے ہسپتال میں بھیج دو. دوا دارو کے دس پندرہ ہزار کے علاوہ ہم کوئی پیسے نہیں لیں گے.

ایک تیسرے دوست نے کہا کہ میرے پاس سرکاری ہسپتال بھیج دو. سارا کام تقریباً مفت ہو جائے گا. (اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ ڈاکٹر صاحب بعد میں کرونا میں شہید ہو گئے، آمین)

ٹھیک عید الفطر کا دن تھا جب خاتون کو تکلیف شروع ہوئی. چونکہ دوسرے دوست کی اہلیہ کا ہسپتال نسبتاً قریب تھا اس لئے وہ مریضہ کو وہاں لے گیا.

کچھ دیر بعد غریب دوست نے فون کیا اور کہا کہ آپ کی جاننے والی ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ کہ فوری آپریشن کی ضرورت ہے. 30 ہزار خرچہ ہے لیکن تمہاری سفارش کی وجہ سے صرف 15 ہزار لیں گے. 5 ہزار ابھی جمع کرو تاکہ کام شروع ہو. اتنی دیر میں باقی رقم کا انتظام کر لو. اس نے کہا کہ میں نے 5 ہزار روپے دے دئیے ہیں اور باقی میں مدد چاہیے.

میں نے کہا کہ فوراً مریض کو فلاں سرکاری ہسپتال پہنچا دو. اگر یہ ڈاکٹر 5 ہزار روپے واپس دیں تو ٹھیک، نہیں تو پیسے چھوڑو اور مریض کو سرکاری ہسپتال پہنچاؤ.

کچھ دیر بعد غریب دوست نے فون کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ ہم نے مریضہ کو ڈلیوری انجکشن لگایا ہے. اگر آپ اس کو دوسرے ہسپتال لے جاوگے تو خدا نخواستہ راستے میں اس کی حالت خراب ہو سکتی ہے.

کچھ دیر بعد میرے دوست، ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر نے فون کیا اور کہا کہ اپنے اس بے وقوف دوست کو سمجھا. اس کا بچہ ماں کے پیٹ میں دس بارہ گھنٹے پہلے مر چکا ہے. اگر فوری طور پر آپریشن کر کے نکال نہ لیا گیا تو بچہ تو مرا ہے ہی، ماں بھی مر جائے گی.

اب میں گھبرا گیا. غریب دوست کو تفصیل تو نہیں بتائی لیکن کہا کہ بھائی اس ہسپتال میں یا سرکاری ہسپتال میں، فیصلہ آپ کریں. اس نے کہا کہ بھائی میں نے لڑ جھگڑ کر اپنا مریض ‘رہا’ کرا لیا ہے اور سرکاری ہسپتال کے راستے میں ہوں.

قصہ مختصر کرتا ہوں. سرکاری ہسپتال نے الٹرا ساونڈ کے بعد کہا کہ زچہ و بچہ دونوں ٹھیک ہیں. درد کی وجہ بدہضمی ہے. گھر جاؤ. اگر درد ہوا تو فوراً آنا، نہ ہوا تو ایک ہفتے بعد ڈیلیوری کے لئے آنا.

ہفتہ بعد نارمل ڈیلیوری سے ایک صحت مند بچی پیدا ہوئی جو اس وقت تقریباً ساڑھے تین سال کی ہے.

بچے کی پیدائش تک میں تجسس کے ساتھ دعائیں کرتا رہا. پیدائش کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر اپنے دوست کو فون کیا کہ بھائی آپ تو بتا رہے تھے کہ بچہ مر چکا ہے وغیرہ. اس نے بغیر کسی شرمندگی کے کہا کہ اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے.

مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ایک عورت، ایک ڈاکٹر، ایک مسیحا چند ہزار روپے کے لئے ایک زندہ بچے کو مردہ قرار دے سکتی ہے اور ایک صحت مند مریض کا پیٹ پھاڑ کر اپنے لئے چند سکے نقد کرنا گوارا کر سکتی ہے لیکن یہ واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے اور اس طرح کے اور بھی تجربات کا چشم دید گواہ ہوں.

پرائیویٹ کلنکس ہمیشہ آپریشن کی طرف جائیں گے کیونکہ اسی میں ان کا فائدہ ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *