India Vs Pakistan Agreement in 1947

India VS Pakistan Agreement

پاکستان اور انڈیاء کے مابین 1947 میں دو بڑے معاہدے ہوے جسمیں ایک تو پانی کا تھا دوسرا نمک کا پہلا یہ تھا کہ جنگ ہو یا امن انڈیاء پاکستان کا پانی نہی روکے گا نا دریاؤں پہ ایکسٹرا ڈیم بناے گا دوسرا ماہدہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ پاکستان جنگ یا امن دونوں صورتوں میں انڈیاء کو نمک کی سپلائی بند نہی کرسکے گا.

پہلے معاہدے کا کیا انجام ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے کہ انڈیاء نے ہمارا پانی روکا یا نہی وہ تو شائد آپ جانتے ہی ہونگے ? نہی جانتے چلیں آپکو بتاتا چلوں انڈیاء آپکو چلو بھر پانی دینے کو بھی راضی نہی پاکستان آنے والے تمام دریاؤں پہ سینکڑوں ڈیمز بنا چکا ہے اور جو پانی ان ڈیمز میں سے بچ جاے تو وہ پانی آپ پہ احسان کیا جاتا آپکی طرف بھج دیا جاتا احسان کرکے یہ تو تھا اس معاہدہ کا احوال جسکو نبھانے کا پابند انڈیا تھا.

اب بات کرتے ہیں دوسرے معاہدہ کی جسکا پابند پاکستان تھا وہ معاہدہ تھا نمک کا کہ پاکستان نمک سپلائی دیتا رہے گا یاد رہے اس معاہدہ پہ ریٹ کے حوالے سے کوئی شق موجود نہی کہ پاکستان کتنا ریٹ لگاتا یا کس قیمت پہ انڈیاء کو یہ نمک بھجے گا اب انڈیاء نے تو ہمارے معاہدہ کی دھجیاں بکھیر رکھی ہیں اور یونائیٹڈ نیشن میں بھی اس معاملہ میں ہماری سنوائی نہی ہے قوم ہماری بیروزگاری کا رونا رو رو کر مر رہی ہے تو ہمیں نہی چاھیے کہ ہم بھی اپنے نمک کیساتھ کچھ نیا سوچیں کچھ یوتھ کو نئے بزنس پلان دیں ہمارا نمک ابھی بھی کوڑیوں کے بھاو انڈیاء جاتا ہے اور اسکے چارجز پاکستان اتنے بھی نہی لگاتا جتنا اس نمک کو کھیوڑہ سے.

کراچی تک کا ٹرانسپورٹیشن کا خرچ آتا ہے کراچی میں مثال کیلیے بتارہا ہوں ورنہ یہ نمک تو واہگہ بارڈر کے تھرو سپلائی کیا جاتا نمک حرام ملک کو اب انڈیاء یہ نمک ہم سے ڈھیلوں کی شکل میں لیتا ہے اور کرتا کیا ہے صرف اسکو کرش کرکے پیستا ہے اور پیک کردیتا ہے اور انتہائی مہنگے داموں پوری دنیا کو سپلائی کررہا ہے.

ہمالین سالک کے نام سے اور بھی کافی برانڈز کے نام پہ شرم تو آنی چاھیے نا ہمیں کہ ہمارا ملک یہاں قرضوں فاقوں میں اٹا پڑا ہے اور ہم کیسے بے فکری سے معاہدہ معاہدہ کرتے ہوے خاموش بیٹھے ہیں کیا ہم خود اس نمک کو کرش کرکے پیک نہی کرسکتے ? اور دنیا بھر میں کہیں بھی پنک سالٹ موجود نہی اور کھیوڑہ جیسا ذائقہ دنیا بھر میں موجود نہی تو کیا ہم اس انڈسٹری کو نہی اٹھا سکتے? اب بات آگئی معاہدہ کی تو پہلا اسٹیپ یہ ہے کہ ہم انڈیاء کو سپلائی دیتے رہیں لیکن ہم خود اپنے برانڈز بھی لانچ کریں ہم بھی دنیا بھر کو نمک سپلائی کرسکتے ہیں.

یاد رہے یہ صرف پاکستان میں ہی نمک کی تھیلی دو روپے پانچ روپے کی ملتی باقی دنیا بھر میں یہ دس ڈالر تک کی بھی ہے یعنی چھوٹی انڈسٹری نہی ہے یہ اس حوالے سے کبھی ہمارے حکمرانوں نے کوئی اقدامات کیوں نہی کیے صرف ایک کمپنی شان والوں کی پاکستانی نمک باہر سپلائی کررہے ہے لیکن وہ بھی لمیٹٹڈ سی مارکیٹ میں اب دوسرا سٹیپ یہ ہے کہ ہم بھی انڈیاء کی طرح ڈھٹائی پہ اتر آئیں اور انڈیاء کو سپلائی کم سے کم کردیں جیسے انکے پاس ہمارا پانی روکنے کی ایک سو بہانے ہیں اسی طرح ہم بھی ایک سو ایک بہانہ جانتے ہیں کہ کیوں سپلائی کم دی جارہی ہے.

اب تیسرا اسٹیپ یہ ہے کہ ہم انڈیاء کو صرف انکی استعمال کا نمک دیں اور اس سے زائد نا دیں دنیا بھر کو سپلائی اپنے برانڈز سے دیں اس سے انڈیاء کے پاس کوئی قانونی اختیار نا ہوگا کہ وہ آپکو فورس کرسکے کہ یہ معاہدہ کی خلاف ورزی کررہے ہیں کیونکہ معاہدہ ہے انڈیاء کیلیے سپلائی دینے کا تو وہ ہم دے رہے ہیں اب چوتھا اسٹیپ یہ ہے کہ ہم انڈیاء کو بھی یہ نمک زیادہ قیمتوں پہ دیں کیونکہ ابھی جو پیسے ہم انڈیاء سے لے رہے ہیں وہ کوڑیوں کے برابر بھی نہی ہے بہرحال حاصل کلام یہی ہے کہ ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی ہوگی.

عمران خان صاحب بار بار کہتے ہیں کہ اس ملک کو اللہ نے بہت زیادہ نوازا ہے واقعی میں اللہ تعالی نے ہمیں بہت زیادہ نعمتوں سے اور ترقی کرنے کیلیے موقعوں سے نوازا ہے بس اب ہمیں چاھیے کہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھائیں لازمی نہی کہ ترقی ہم نے فقط اسی صورت کرنی تھی جب سمندر سے تیل نکل آئے اللہ تعالی نے جو نعمتیں ہمیں دے رکھی ہیں انکو ہم بےدریغ غلط طریقوں سے ضائع کررہے ہیں اور نئی امیدوں پہ تکیہ کیے ہوے ہیں اللہ سمجھنے کی توفیق دے اور ارباب اختیار تک میری آواز پہنچانے کیلیے اس تحریر کو کاپی کریں شئیر کریں یا کچھ بھی کریں بس یہ تحریر اوپر پہنچنی چاھیے میں نہی کہتا میں نے اسمیں بہت لمبی چوڑی ریسرچ کرکے یہ فیکٹس جمع کیے ہیں او بھئی یہ کھلی حقیقت ہے آنکھوں کے سامنے ہے بس آنکھ کھولنے کی ضرورت ہے بس اسی آنکھ کا پردہ ہٹانے میں میرا ساتھ دیں اس تحریر کو شئیر کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *